انٹرویو میں ان اسی سالہ خاتون سے پوچھا گیا کی ان کی پرسکون ازدواجی زندگی کا راز کیا ہے؟
کیا وہ کھانا بنانے میں بہت ماہر تھیں؟
یا پھر ان کی خوبصورتی اس کا سبب ہے؟
یا ڈھیر سارے سارے بچوں کا ہونا اس کی؟وجہ ہے یا پھر کوئی اور بات ہے؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا : پرسکون شادی شدہ زندگی کا دار و مدار اللہ کی توفیق کے بعد عورت کے ہاتھ میں ہے،
اس سلسلے میں مال کا نام مت لیجیے
بہت ساری مالدار عورتیں ہیں جن کی زندگی اجیرن ہے، شوہر ان سے بھاگا رہتا ہے
خوشحال شادی شدہ زندگی کا سبب اولاد بھی نہیں ہے، بہت ساری عورتیں ہیں جن کے بچے ہیں پھر بھی وہ شوہر کی محبت سے محروم ہیں بلکہ طلاق تک کی نوبت آجاتی ہے
بہت ساری خواتین کھانا پکانے میں ماہر ہوتی ہیں، دن دن بھر کھانا بناتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں شوہر کی بدسلوکی کی شکایت رہتی ہے
انٹرویو لینے والی خاتون صحافی کو بہت حیرت ہوئی، اس نے پوچھا :
پھر آخر اس خوشحال زندگی کا راز کیا ہے ؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا : جب میرا شوہر انتہائی غصے میں ہوتا ہے تو میں خاموشی کا سہارا لے لیتی ہوں لیکن اس خاموشی میں بھی احترام شامل ہوتا ہے، میں افسوس کے ساتھ سر جھکا لیتی ہوں.
ایسے موقع پر بعض خواتین خاموش تو ہوجاتی ہیں لیکن اس میں تمسخر کا عنصر شامل ہوتا ہے اس سے بچنا چاہیے، سمجھدار آدمی اسے فوراً بھانپ لیتا ہے
صحافی خاتون نے پوچھا : ایسے موقعے پر آپ کمرے سے نکل کیوں نہیں جاتیں؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا : نہیں، ایسا کرنے سے شوہر کو یہ لگے گا کہ آپ اس سے بھاگ رہی ہیں،
اسے سننا بھی نہیں چاہتی ہیں.
ایسے موقعے پر خاموش رہنا چاہیے اور جب تک وہ پرسکون نہ ہوجائے اس کی کسی بات کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے.
جب شوہر کسی حد تک پرسکون ہوجاتا ہے تو میں کہتی ہوں :
پوری ہو گئی آپ کی بات ؟
پھر میں کمرے سے چلی جاتی ہوں
کیونکہ شوہر بول بول کر تھک چکا ہوتا ہے اور چیخنے چلانے کے بعد اب اسے تھوڑے آرام کی ضرورت ہوتی ہے.
میں کمرے سے نکل جاتی ہوں اور اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہوں.
خاتون صحافی نے پوچھا : اس کے بعد آپ کیا کرتی ہیں؟ کیا آپ بول چال بند کرنے کا اسلوب اپناتی ہیں؟ ایک آدھ ہفتہ بات چیت نہیں کرتی ہیں؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا : نہیں !
اس بری عادت سے ہمیشہ بچنا چاہیے،
یہ دودھاری ہتھیار ہے،
جب آپ ایک ہفتے تک شوہر سے بات چیت نہیں کریں گی ایسے وقت میں جب کہ اسے آپ کے ساتھ مصالحت کی ضرورت ہے تو وہ اس کیفیت کا عادی ہو جائے گا اور پھر یہ چیز بڑھتے بڑھتے خطرناک قسم کی نفرت کی شکل اختیار کر لے گی.
صحافی نے پوچھا : پھر آپ کیا کرتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں :
میں دو تین گھنٹے بعد شوہر کے پاس ایک گلاس جوس یا ایک کپ کافی لے کر جاتی ہوں اور محبت بھرے انداز میں کہتی ہوں: پی لیجیے.
حقیقت میں شوہر کو اسی کی ضرورت ہوتی ہے.
پھر میں اس سے نارمل انداز میں بات کرنے لگتی ہوں.
وہ پوچھتا ہے کیا میں اس سے ناراض ہوں؟
میں کہتی ہوں : نہیں.
اس کے بعد وہ اپنی سخت کلامی پر معذرت کرتا ہے اور خوبصورت قسم کی باتیں کرنے لگتا ہے.
انٹرویو لینے والی خاتون نے پوچھا : اور آپ اس کی یہ باتیں مان لیتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں : بالکل، میں کوئی اناڑی تھوڑی ہوں، مجھے اپنے آپ پر پورا بھروسہ ہوتا ہے.
کیا آپ چاہتی ہیں کہ میرا شوہر جب غصے میں ہو تو میں اس کی ہر بات کا یقین کرلوں اور جب وہ پرسکون ہو تو تو اس کی کوئی بات نہ مانوں؟
خاتون صحافی نے پوچھا : اور آپ کی عزت نفس (self respect) ؟
بوڑھی خاتون بولیں :
پہلی بات تو یہ کہ میری عزت نفس اس میں ہے
جب میرا شوہر مجھ سے راضی ہو
اور ہماری شادی شدہ زندگی پرسکون ہو
دوسری بات یہ کہ شوہر بیوی کے درمیان عزت نفس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی
جب مرد و عورت ایک دوسرے کے لباس ہیں تو پھر کیسی عزت نفس ؟؟
انٹرویو میں ان اسی سالہ خاتون سے پوچھا گیا کی ان کی پرسکون ازدواجی زندگی کا راز کیا ہے؟
کیا وہ کھانا بنانے میں بہت ماہر تھیں؟
یا پھر ان کی خوبصورتی اس کا سبب ہے؟
یا ڈھیر سارے سارے بچوں کا ہونا اس کی؟وجہ ہے یا پھر کوئی اور بات ہے؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا : پرسکون شادی شدہ زندگی کا دار و مدار اللہ کی توفیق کے بعد عورت کے ہاتھ میں ہے،
اس سلسلے میں مال کا نام مت لیجیے
بہت ساری مالدار عورتیں ہیں جن کی زندگی اجیرن ہے، شوہر ان سے بھاگا رہتا ہے
خوشحال شادی شدہ زندگی کا سبب اولاد بھی نہیں ہے، بہت ساری عورتیں ہیں جن کے بچے ہیں پھر بھی وہ شوہر کی محبت سے محروم ہیں بلکہ طلاق تک کی نوبت آجاتی ہے
بہت ساری خواتین کھانا پکانے میں ماہر ہوتی ہیں، دن دن بھر کھانا بناتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں شوہر کی بدسلوکی کی شکایت رہتی ہے
انٹرویو لینے والی خاتون صحافی کو بہت حیرت ہوئی، اس نے پوچھا :
پھر آخر اس خوشحال زندگی کا راز کیا ہے ؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا : جب میرا شوہر انتہائی غصے میں ہوتا ہے تو میں خاموشی کا سہارا لے لیتی ہوں لیکن اس خاموشی میں بھی احترام شامل ہوتا ہے، میں افسوس کے ساتھ سر جھکا لیتی ہوں.
ایسے موقع پر بعض خواتین خاموش تو ہوجاتی ہیں لیکن اس میں تمسخر کا عنصر شامل ہوتا ہے اس سے بچنا چاہیے، سمجھدار آدمی اسے فوراً بھانپ لیتا ہے
صحافی خاتون نے پوچھا : ایسے موقعے پر آپ کمرے سے نکل کیوں نہیں جاتیں؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا : نہیں، ایسا کرنے سے شوہر کو یہ لگے گا کہ آپ اس سے بھاگ رہی ہیں،
اسے سننا بھی نہیں چاہتی ہیں.
ایسے موقعے پر خاموش رہنا چاہیے اور جب تک وہ پرسکون نہ ہوجائے اس کی کسی بات کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے.
جب شوہر کسی حد تک پرسکون ہوجاتا ہے تو میں کہتی ہوں :
پوری ہو گئی آپ کی بات ؟
پھر میں کمرے سے چلی جاتی ہوں
کیونکہ شوہر بول بول کر تھک چکا ہوتا ہے اور چیخنے چلانے کے بعد اب اسے تھوڑے آرام کی ضرورت ہوتی ہے.
میں کمرے سے نکل جاتی ہوں اور اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہوں.
خاتون صحافی نے پوچھا : اس کے بعد آپ کیا کرتی ہیں؟ کیا آپ بول چال بند کرنے کا اسلوب اپناتی ہیں؟ ایک آدھ ہفتہ بات چیت نہیں کرتی ہیں؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا : نہیں !
اس بری عادت سے ہمیشہ بچنا چاہیے،
یہ دودھاری ہتھیار ہے،
جب آپ ایک ہفتے تک شوہر سے بات چیت نہیں کریں گی ایسے وقت میں جب کہ اسے آپ کے ساتھ مصالحت کی ضرورت ہے تو وہ اس کیفیت کا عادی ہو جائے گا اور پھر یہ چیز بڑھتے بڑھتے خطرناک قسم کی نفرت کی شکل اختیار کر لے گی.
صحافی نے پوچھا : پھر آپ کیا کرتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں :
میں دو تین گھنٹے بعد شوہر کے پاس ایک گلاس جوس یا ایک کپ کافی لے کر جاتی ہوں اور محبت بھرے انداز میں کہتی ہوں: پی لیجیے.
حقیقت میں شوہر کو اسی کی ضرورت ہوتی ہے.
پھر میں اس سے نارمل انداز میں بات کرنے لگتی ہوں.
وہ پوچھتا ہے کیا میں اس سے ناراض ہوں؟
میں کہتی ہوں : نہیں.
اس کے بعد وہ اپنی سخت کلامی پر معذرت کرتا ہے اور خوبصورت قسم کی باتیں کرنے لگتا ہے.
انٹرویو لینے والی خاتون نے پوچھا : اور آپ اس کی یہ باتیں مان لیتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں : بالکل، میں کوئی اناڑی تھوڑی ہوں، مجھے اپنے آپ پر پورا بھروسہ ہوتا ہے.
کیا آپ چاہتی ہیں کہ میرا شوہر جب غصے میں ہو تو میں اس کی ہر بات کا یقین کرلوں اور جب وہ پرسکون ہو تو تو اس کی کوئی بات نہ مانوں؟
خاتون صحافی نے پوچھا : اور آپ کی عزت نفس (self respect) ؟
بوڑھی خاتون بولیں :
پہلی بات تو یہ کہ میری عزت نفس اس میں ہے
جب میرا شوہر مجھ سے راضی ہو
اور ہماری شادی شدہ زندگی پرسکون ہو
دوسری بات یہ کہ شوہر بیوی کے درمیان عزت نفس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی
جب مرد و عورت ایک دوسرے کے لباس ہیں تو پھر کیسی عزت نفس ؟؟
منقول hindi kro
بالکل۔ میں اس خوبصورت اور بامقصد واقعہ کو **ہندی** میں ترجمہ کر دیتا ہوں:
***
### साक्षात्कार
एक अस्सी साल की बुजुर्ग महिला से साक्षात्कार में पूछा गया कि उनकी शांतिपूर्ण वैवाहिक ज़िंदगी का राज़ क्या है?
क्या वह खाना बनाने में बहुत माहिर थीं?
या उनकी ख़ूबसूरती इसका कारण है?
या फिर बहुत सारे बच्चों का होना इसका राज़ है?
या फिर कुछ और…?
बुज़ुर्ग महिला ने जवाब दिया:
शांतिपूर्ण वैवाहिक जीवन, अल्लाह की तौफ़ीक़ के बाद, औरत के हाथ में होता है।
इसमें धन-दौलत का कोई नाम न लीजिए। बहुत-सी अमीर महिलाएँ हैं जिनकी ज़िंदगी दुखों से भरी है, जिनके पति उनसे दूर भागते रहते हैं।
खुशहाल वैवाहिक जीवन का कारण सिर्फ़ बच्चे भी नहीं हैं। कई महिलाओं के बच्चे होते हैं, फिर भी वे पति के प्यार से महरूम रहती हैं और कई बार तो तलाक़ तक की नौबत आ जाती है।
बहुत सारी महिलाएँ खाना बनाने में माहिर होती हैं, दिन-भर रसोई में लगी रहती हैं, फिर भी उन्हें पति की बदसलूकी का सामना करना पड़ता है।
पत्रकार महिला को यह सब सुनकर हैरानी हुई। उसने पूछा :
"फिर आखिर आपकी खुशहाल जिंदगी का राज़ क्या है?"
बुज़ुर्ग महिला ने जवाब दिया:
"जब मेरा पति बहुत गुस्से में होता है तो मैं चुप्पी साध लेती हूँ। लेकिन उस चुप्पी में भी इज़्ज़त और सम्मान होता है। मैं खेद के साथ सिर झुका लेती हूँ।
बहुत-सी महिलाएँ ऐसे समय में चुप तो हो जाती हैं लेकिन उनके हावभाव में मज़ाक या ताना झलकता है, जिससे स्थिति और बिगड़ जाती है।"
पत्रकार ने पूछा:
"ऐसे समय पर आप कमरे से बाहर क्यों नहीं चली जातीं?"
बुज़ुर्ग महिला बोलीं:
"नहीं, ऐसा करने से पति को लगेगा कि मैं उससे भाग रही हूँ और उसकी बातें सुनना नहीं चाहती।
ऐसे में चुप रहना चाहिए और तब तक उसकी किसी बात की विरोध नहीं करनी चाहिए जब तक वह खुद शांत न हो जाए।"
"जब वह कुछ शांत हो जाता है, तब मैं धीरे से कहती हूँ:
‘क्या आपकी बातें पूरी हो गईं?’
उसके बाद मैं कमरे से निकलकर अपने सामान्य कामों में लग जाती हूँ।"
पत्रकार ने पूछा:
"उसके बाद आप क्या करती हैं? क्या आप उससे कई दिनों तक नाराज़ रहकर बात नहीं करतीं?"
बुज़ुर्ग महिला ने कहा:
"नहीं! यह बहुत बुरी आदत है।
यह दोधारी तलवार है। अगर आप पति से हफ्तेभर बात नहीं करेंगी, ठीक उसी समय जब उसे आपकी ज़रूरत सबसे ज़्यादा है, तो वह इस दूरी का आदी हो जाएगा और धीरे-धीरे यह स्थिति खतरनाक नफरत में बदल जाएगी।"
पत्रकार बोली: "तो फिर आप क्या करती हैं?"
बुज़ुर्ग महिला ने बताया:
"मैं दो-तीन घंटे बाद पति के पास जूस का गिलास या कॉफी का कप ले जाती हूँ और प्यार से कहती हूँ: ‘लीजिए, पी लीजिए।’
असल में उसी की ज़रूरत होती है उसे। फिर मैं सामान्य तरीके से बात करना शुरू करती हूँ।
वह मुझसे पूछता है – क्या तुम मुझसे नाराज़ हो?
मैं कहती हूँ – नहीं।
फिर वह खुद अपनी कड़वी बातों के लिए माफ़ी माँगता है और अच्छे-अच्छे शब्द कहने लगता है।"
पत्रकार ने पूछा:
"और आप उसकी इन बातों पर यक़ीन कर लेती हैं?"
बुज़ुर्ग महिला मुस्कुराकर बोलीं:
"बिलकुल। मैं कोई अनाड़ी नहीं हूँ। मुझे अपने आप पर पूरा भरोसा होता है।
क्या आप चाहती हैं कि जब वह गुस्से में बातें करे तो मैं सब मान लूँ और जब वह शांत होकर प्यार से बोले तो मैं कुछ भी न मानूँ?"
पत्रकार ने पूछा:
"और आपका स्वाभिमान (Self Respect) कहाँ गया?"
बुज़ुर्ग महिला ने कहा:
"पहली बात तो यह कि मेरा स्वाभिमान इसी में है कि मेरा पति मुझसे खुश रहे और हमारी शादीशुदा ज़िंदगी सुकून से गुज़रे।
दूसरी बात – पति और पत्नी के बीच 'अलग-अलग स्वाभिमान' जैसी कोई चीज़ नहीं होती।
जब पति-पत्नी एक-दूसरे का 'लिबास' (पोशाक) हैं, तो फिर कैसा अलग-अलग स्वाभिमान?"
---
👉 यह कहानी हमें यह सिखाती है कि **धैर्य, सम्मान और समय पर समझदारी भरा बर्ताव ही वैवाहिक जीवन को शांतिपूर्ण और सफल बनाता है।**
***
क्या आप चाहेंगे کہ मैं इसे ہندی میں ایک **مختصر سبق آموز کہانی** کے انداز میں بھی سادہ کرکے لکھ دوں تاکہ عام قاری کو زیادہ اثر کرے؟
انٹرویو میں ان اسی سالہ خاتون سے پوچھا گیا کی ان کی پرسکون ازدواجی زندگی کا راز کیا ہے؟
کیا وہ کھانا بنانے میں بہت ماہر تھیں؟
یا پھر ان کی خوبصورتی اس کا سبب ہے؟
یا ڈھیر سارے سارے بچوں کا ہونا اس کی؟وجہ ہے یا پھر کوئی اور بات ہے؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا : پرسکون شادی شدہ زندگی کا دار و مدار اللہ کی توفیق کے بعد عورت کے ہاتھ میں ہے،
اس سلسلے میں مال کا نام مت لیجیے
بہت ساری مالدار عورتیں ہیں جن کی زندگی اجیرن ہے، شوہر ان سے بھاگا رہتا ہے
خوشحال شادی شدہ زندگی کا سبب اولاد بھی نہیں ہے، بہت ساری عورتیں ہیں جن کے بچے ہیں پھر بھی وہ شوہر کی محبت سے محروم ہیں بلکہ طلاق تک کی نوبت آجاتی ہے
بہت ساری خواتین کھانا پکانے میں ماہر ہوتی ہیں، دن دن بھر کھانا بناتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی انہیں شوہر کی بدسلوکی کی شکایت رہتی ہے
انٹرویو لینے والی خاتون صحافی کو بہت حیرت ہوئی، اس نے پوچھا :
پھر آخر اس خوشحال زندگی کا راز کیا ہے ؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا : جب میرا شوہر انتہائی غصے میں ہوتا ہے تو میں خاموشی کا سہارا لے لیتی ہوں لیکن اس خاموشی میں بھی احترام شامل ہوتا ہے، میں افسوس کے ساتھ سر جھکا لیتی ہوں.
ایسے موقع پر بعض خواتین خاموش تو ہوجاتی ہیں لیکن اس میں تمسخر کا عنصر شامل ہوتا ہے اس سے بچنا چاہیے، سمجھدار آدمی اسے فوراً بھانپ لیتا ہے
صحافی خاتون نے پوچھا : ایسے موقعے پر آپ کمرے سے نکل کیوں نہیں جاتیں؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا : نہیں، ایسا کرنے سے شوہر کو یہ لگے گا کہ آپ اس سے بھاگ رہی ہیں،
اسے سننا بھی نہیں چاہتی ہیں.
ایسے موقعے پر خاموش رہنا چاہیے اور جب تک وہ پرسکون نہ ہوجائے اس کی کسی بات کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے.
جب شوہر کسی حد تک پرسکون ہوجاتا ہے تو میں کہتی ہوں :
پوری ہو گئی آپ کی بات ؟
پھر میں کمرے سے چلی جاتی ہوں
کیونکہ شوہر بول بول کر تھک چکا ہوتا ہے اور چیخنے چلانے کے بعد اب اسے تھوڑے آرام کی ضرورت ہوتی ہے.
میں کمرے سے نکل جاتی ہوں اور اپنے معمول کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہوں.
خاتون صحافی نے پوچھا : اس کے بعد آپ کیا کرتی ہیں؟ کیا آپ بول چال بند کرنے کا اسلوب اپناتی ہیں؟ ایک آدھ ہفتہ بات چیت نہیں کرتی ہیں؟
بوڑھی خاتون نے جواب دیا : نہیں !
اس بری عادت سے ہمیشہ بچنا چاہیے،
یہ دودھاری ہتھیار ہے،
جب آپ ایک ہفتے تک شوہر سے بات چیت نہیں کریں گی ایسے وقت میں جب کہ اسے آپ کے ساتھ مصالحت کی ضرورت ہے تو وہ اس کیفیت کا عادی ہو جائے گا اور پھر یہ چیز بڑھتے بڑھتے خطرناک قسم کی نفرت کی شکل اختیار کر لے گی.
صحافی نے پوچھا : پھر آپ کیا کرتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں :
میں دو تین گھنٹے بعد شوہر کے پاس ایک گلاس جوس یا ایک کپ کافی لے کر جاتی ہوں اور محبت بھرے انداز میں کہتی ہوں: پی لیجیے.
حقیقت میں شوہر کو اسی کی ضرورت ہوتی ہے.
پھر میں اس سے نارمل انداز میں بات کرنے لگتی ہوں.
وہ پوچھتا ہے کیا میں اس سے ناراض ہوں؟
میں کہتی ہوں : نہیں.
اس کے بعد وہ اپنی سخت کلامی پر معذرت کرتا ہے اور خوبصورت قسم کی باتیں کرنے لگتا ہے.
انٹرویو لینے والی خاتون نے پوچھا : اور آپ اس کی یہ باتیں مان لیتی ہیں؟
بوڑھی خاتون بولیں : بالکل، میں کوئی اناڑی تھوڑی ہوں، مجھے اپنے آپ پر پورا بھروسہ ہوتا ہے.
کیا آپ چاہتی ہیں کہ میرا شوہر جب غصے میں ہو تو میں اس کی ہر بات کا یقین کرلوں اور جب وہ پرسکون ہو تو تو اس کی کوئی بات نہ مانوں؟
خاتون صحافی نے پوچھا : اور آپ کی عزت نفس (self respect) ؟
بوڑھی خاتون بولیں :
پہلی بات تو یہ کہ میری عزت نفس اس میں ہے
جب میرا شوہر مجھ سے راضی ہو
اور ہماری شادی شدہ زندگی پرسکون ہو
دوسری بات یہ کہ شوہر بیوی کے درمیان عزت نفس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی
جب مرد و عورت ایک دوسرے کے لباس ہیں تو پھر کیسی عزت نفس ؟؟
منقول hindi kro
بالکل۔ میں اس خوبصورت اور بامقصد واقعہ کو **ہندی** میں ترجمہ کر دیتا ہوں:
***
### साक्षात्कार
एक अस्सी साल की बुजुर्ग महिला से साक्षात्कार में पूछा गया कि उनकी शांतिपूर्ण वैवाहिक ज़िंदगी का राज़ क्या है?
क्या वह खाना बनाने में बहुत माहिर थीं?
या उनकी ख़ूबसूरती इसका कारण है?
या फिर बहुत सारे बच्चों का होना इसका राज़ है?
या फिर कुछ और…?
बुज़ुर्ग महिला ने जवाब दिया:
शांतिपूर्ण वैवाहिक जीवन, अल्लाह की तौफ़ीक़ के बाद, औरत के हाथ में होता है।
इसमें धन-दौलत का कोई नाम न लीजिए। बहुत-सी अमीर महिलाएँ हैं जिनकी ज़िंदगी दुखों से भरी है, जिनके पति उनसे दूर भागते रहते हैं।
खुशहाल वैवाहिक जीवन का कारण सिर्फ़ बच्चे भी नहीं हैं। कई महिलाओं के बच्चे होते हैं, फिर भी वे पति के प्यार से महरूम रहती हैं और कई बार तो तलाक़ तक की नौबत आ जाती है।
बहुत सारी महिलाएँ खाना बनाने में माहिर होती हैं, दिन-भर रसोई में लगी रहती हैं, फिर भी उन्हें पति की बदसलूकी का सामना करना पड़ता है।
पत्रकार महिला को यह सब सुनकर हैरानी हुई। उसने पूछा :
"फिर आखिर आपकी खुशहाल जिंदगी का राज़ क्या है?"
बुज़ुर्ग महिला ने जवाब दिया:
"जब मेरा पति बहुत गुस्से में होता है तो मैं चुप्पी साध लेती हूँ। लेकिन उस चुप्पी में भी इज़्ज़त और सम्मान होता है। मैं खेद के साथ सिर झुका लेती हूँ।
बहुत-सी महिलाएँ ऐसे समय में चुप तो हो जाती हैं लेकिन उनके हावभाव में मज़ाक या ताना झलकता है, जिससे स्थिति और बिगड़ जाती है।"
पत्रकार ने पूछा:
"ऐसे समय पर आप कमरे से बाहर क्यों नहीं चली जातीं?"
बुज़ुर्ग महिला बोलीं:
"नहीं, ऐसा करने से पति को लगेगा कि मैं उससे भाग रही हूँ और उसकी बातें सुनना नहीं चाहती।
ऐसे में चुप रहना चाहिए और तब तक उसकी किसी बात की विरोध नहीं करनी चाहिए जब तक वह खुद शांत न हो जाए।"
"जब वह कुछ शांत हो जाता है, तब मैं धीरे से कहती हूँ:
‘क्या आपकी बातें पूरी हो गईं?’
उसके बाद मैं कमरे से निकलकर अपने सामान्य कामों में लग जाती हूँ।"
पत्रकार ने पूछा:
"उसके बाद आप क्या करती हैं? क्या आप उससे कई दिनों तक नाराज़ रहकर बात नहीं करतीं?"
बुज़ुर्ग महिला ने कहा:
"नहीं! यह बहुत बुरी आदत है।
यह दोधारी तलवार है। अगर आप पति से हफ्तेभर बात नहीं करेंगी, ठीक उसी समय जब उसे आपकी ज़रूरत सबसे ज़्यादा है, तो वह इस दूरी का आदी हो जाएगा और धीरे-धीरे यह स्थिति खतरनाक नफरत में बदल जाएगी।"
पत्रकार बोली: "तो फिर आप क्या करती हैं?"
बुज़ुर्ग महिला ने बताया:
"मैं दो-तीन घंटे बाद पति के पास जूस का गिलास या कॉफी का कप ले जाती हूँ और प्यार से कहती हूँ: ‘लीजिए, पी लीजिए।’
असल में उसी की ज़रूरत होती है उसे। फिर मैं सामान्य तरीके से बात करना शुरू करती हूँ।
वह मुझसे पूछता है – क्या तुम मुझसे नाराज़ हो?
मैं कहती हूँ – नहीं।
फिर वह खुद अपनी कड़वी बातों के लिए माफ़ी माँगता है और अच्छे-अच्छे शब्द कहने लगता है।"
पत्रकार ने पूछा:
"और आप उसकी इन बातों पर यक़ीन कर लेती हैं?"
बुज़ुर्ग महिला मुस्कुराकर बोलीं:
"बिलकुल। मैं कोई अनाड़ी नहीं हूँ। मुझे अपने आप पर पूरा भरोसा होता है।
क्या आप चाहती हैं कि जब वह गुस्से में बातें करे तो मैं सब मान लूँ और जब वह शांत होकर प्यार से बोले तो मैं कुछ भी न मानूँ?"
पत्रकार ने पूछा:
"और आपका स्वाभिमान (Self Respect) कहाँ गया?"
बुज़ुर्ग महिला ने कहा:
"पहली बात तो यह कि मेरा स्वाभिमान इसी में है कि मेरा पति मुझसे खुश रहे और हमारी शादीशुदा ज़िंदगी सुकून से गुज़रे।
दूसरी बात – पति और पत्नी के बीच 'अलग-अलग स्वाभिमान' जैसी कोई चीज़ नहीं होती।
जब पति-पत्नी एक-दूसरे का 'लिबास' (पोशाक) हैं, तो फिर कैसा अलग-अलग स्वाभिमान?"
---
👉 यह कहानी हमें यह सिखाती है कि **धैर्य, सम्मान और समय पर समझदारी भरा बर्ताव ही वैवाहिक जीवन को शांतिपूर्ण और सफल बनाता है।**
***
क्या आप चाहेंगे کہ मैं इसे ہندی میں ایک **مختصر سبق آموز کہانی** کے انداز میں بھی سادہ کرکے لکھ دوں تاکہ عام قاری کو زیادہ اثر کرے؟
english
جی ہاں، میں آپ کو اس خوبصورت نصیحت آموز واقعے کا **انگلش ترجمہ** پیش کر دیتا ہوں:
***
### Interview
In an interview, an 80‑year‑old woman was asked the secret of her long and peaceful married life.
Was it because she was an excellent cook?
Or was it due to her beauty?
Or perhaps having many children was the secret?
Or something else entirely?
The elderly woman replied:
"A peaceful married life, after the grace of God, depends greatly on the woman herself.
Do not mention wealth in this matter. Many wealthy women live miserable lives, with husbands who avoid them.
Children are not the real reason either. Many women have children, yet they remain deprived of their husband’s love, and sometimes the relationship even ends in divorce.
Cooking skills alone are not the answer either. Many women cook all day long, but still receive mistreatment from their husbands."
The interviewer was surprised and asked:
"Then what exactly is the secret of a happy marriage?"
The old lady replied:
"When my husband is extremely angry, I remain silent. But my silence is respectful — I lower my head in regret.
Some women also stay quiet, but their silence carries sarcasm and mockery. A wise man quickly senses this, and it worsens the situation."
The interviewer asked:
"Then why don’t you just leave the room in such situations?"
The old lady said:
"No. If I walk out, my husband will think I am running away from him and don’t want to listen to him.
At such times, it’s better to remain silent and avoid opposing him until he calms down."
"When he finally cools down a bit, I gently ask:
‘Have you finished saying what you wanted to say?’
Then I quietly leave the room and engage in my normal household activities."
The journalist asked:
"And what do you do after that? Do you stop talking to him for days as a form of punishment?"
The elderly woman replied:
"No! One must always avoid such a habit.
It is a double‑edged sword. When you stop talking to your husband for days — especially at a time when he actually needs reconciliation — he grows used to the distance, and slowly, that can turn into dangerous levels of resentment or even hatred."
The interviewer then asked:
"So what do you do instead?"
The old lady smiled and said:
"After two or three hours, I go to him with a glass of juice or a cup of coffee, and lovingly say: ‘Here, please drink this.’
This is exactly what he needs at that moment. Then I start speaking to him normally again.
He usually asks me: ‘Are you upset with me?’
And I say, ‘No.’
Then he apologizes for his harsh words and starts speaking kindly again."
The journalist asked:
"And you forgive him just like that?"
The old woman said with confidence:
"Of course! I am not foolish. I have full trust in myself.
Should I believe everything he says in anger, but not trust a single word when he speaks calmly with love? That would be unreasonable!"
The interviewer asked finally:
"And what about your self‑respect?"
The elderly woman replied:
"My dignity lies in my husband being happy with me, and in us having a peaceful married life.
Besides, between husband and wife, there should be no rivalry of self‑respect.
When a man and a woman are described as each other’s ‘garments’ — covering and protecting one another — then how can there be an issue of separate egos or self‑respect?"
***
👉 **Lesson:** This story teaches us that **patience, respect, and wisely choosing the right response** are the true secrets of a happy and lasting marriage.
***
Would you like me to **summarize this entire story into a very short inspirational anecdote** in English — just a few impactful lines? That way it becomes easy to share as a moral lesson.
Blogger Comment
Facebook Comment